الوداع
کیسے ماہ و سال گزرے
اب نہ کچھ بھی یاد ہے
صرف ہیں دھندلے نقوش
یا بصارت کی کمی ہے
کچھ نظر آتا نہیں
بس کتابوں اور فلموں میں رہی
اک بصیرت کی تلاش
کچھ نہ کچھ روٹی کی بھی تھی جستجو
جانے کس منزل کی تھی وہ آرزو
بے سبب لوگوں سے یارانہ رہا
اور پھر تنہا رہا برسوں تلک
سب تھے قیدی اپنے اپنے جال کے
تمناؤں کی دلدل میں پڑے
کس میں ہمت تھی کہ بدلے زندگانی کے پرانے خول کو
ہم سے سرکش کو دیا کرتے تھے نام
اور ہنس کر خوش ہوا کرتے سارے اجنبی
کون سمجھائے کہ ہم محکوم ہیں مظلوم ہیں
بے بسی کیسے مقدر بن گئی
بولے گا کون
خوف ایسا ہے کہ کوئی شخص کچھ کہتا نہیں
جانے کس طوفان کے سب منتظر ہیں
بت بنے
کیسے چلاؤں کہ اپنا ہم نوا کوئی نہیں
الوداع خود اپنے سائے کو مگر
کہنا پڑا
نظم
الوداع
باقر مہدی