یہ سست ماہے
ماں کے خالی پیٹ کے ویرانے میں کراہے
ننگوں، بھوکوں، بھک منگوں نے
اپنی سدا سہاگن لائن اور بڑھا دی
وہ اعزاز دیا
ایک جگہ مستقل بنا دی
ان کی خمیدہ پشت
اپنے کوہان سے
مڑی کمان تھی
جس کی بد صورت پرچھائیں
خط فلک پر داغ کاڑھتی تھی
نیلے رنگ افسردہ لگتے تھے
ان کے باپ پرانے گھاگ
بڑے جلالی بھک منگے تھے
سارے کاسہ لیسوں پر
کچھ ایسی دھاک۔۔۔!
وہ ان کی آواز سنیں
تو رستہ چھوڑ دیں
اور گلے میں ایسی تان۔۔۔۔!
جو پنکج کی کھرج بھلا دے
(عجب زمانہ تھا
جو یورپ کے گلزاروں میں
اکھوے پھوٹتے تھے
تب بنگال کے اور پنجاب کے
لش لش کرتے کھیتوں میں
دھان اور گندم کے خوشے
مرجھانے لگتے تھے)
اس پس منظر میں
باپ کی مستقبل اندیشی نے
تین برس کی لنج منج سی
چیز کے دونوں ہات
چٹ چٹ توڑ کے
ایک ایک کہنی اور بنا دی تھی
چار دانگ میں شہرت پھیل گئی
''پردا....
....پردا
چار کہنیوں والے
رام چرن الکبڑے آتے ہیں''
اس آواز نے
اتنے اتواروں کی خاموشی توڑی تھی
جن کا حساب نہیں
یہ کچھوے کی
الٹی پیٹھ ایسی
تختی کی کشتی میں
پیروں کے پتوار چلاتے
ہمک ہمک اندر آتے
اور چقوں کے پاس پہنچ کر
تام چینی برتنوں سے
چپر چپر کھانے کھاتے
اور دادی جان کے سائے سے
سہج سہج باتیں کرتے جاتے تھے
سولہ سال یہی معمول رہا
دل داری اور شکم پری کا یہی اصول رہا
ایک شام ابھاگن آئی
یہ نہیں آئے
کوئی سیتلا ڈائن آئی
یہ نہیں آئے
بڑی ڈھنڈیا پڑی
اداسی پھیل گئی
امی جان اور دادی جان نے
پیسے بھیج کے
جلوانے کا بند و بست کیا
تو جل کر بھسم ہوئے
پر ان کی مقدس راکھ آج بھی
میری روح میں اڑتی ہے
''پردا....
....پردا
چار کہنیوں والے
رام چرن الکبڑے آتے ہیں''
نظم
الکبڑے
ساقی فاروقی