EN हिंदी
الگنی | شیح شیری
algani

نظم

الگنی

ملک احسان

;

ایک ہی پل میں اچٹ جاتی ہے یہ نیند مری
ایک بجلی سی چمک جاتی ہے ان آنکھوں میں

یک بیک تیز پھواریں جوں برس جاتی ہوں
اور آنگن میں سکھانے کے لیے سب کپڑے

تر بتر ہو کے لپٹ جاتے ہیں اک ڈوری سے
ان کو موجود ہے اک ڈور بدن کی مانند

تھرتھراتی ہوئی آتی ہے چلی جاتی ہے
پر ہوا ان کو جدا کر نہیں سکتی یکسر

جب تلک سوکھ نہ جائے جو نمی ان میں ہے
رہتے رہتے تری تصویر ابھر آتی ہے

میری آنکھوں میں کسی پردۂ سیمیں کی طرح
یک بیک تیز پھواریں جوں برس جاتی ہیں

دور اک الگنی سی ہے وہ میرے پاس نہیں