یہ لفظ سقراط لفظ عیسیٰ
میں ان کا خالق یہ میرے خالق
یہی ازل ہیں یہی ابد ہیں یہی زماں ہیں یہی مکاں ہیں
یہ ذہن تا ذہن رہگزر ہیں یہ روح تا روح اک سفر ہیں
صداقت عصر بھی یہی ہیں کراہت جبر بھی یہی ہیں
علامت درد بھی یہی ہیں کرامت صبر بھی یہی ہیں
بغیر تفریق رنگ و مذہب زمیں زمیں ان کی بادشاہی
کھنچے ہوئے ہیں لہو لہو میں بچھے ہوئے ہیں زباں زباں پر
یہ جھوٹ بھی ہیں یہ لوٹ بھی ہیں یہ جنگ بھی ہیں یہ خون بھی ہیں
مگر یہ مجبوریاں ہیں ان کی
بغیر ان کے حیات ساری توہماتی
ہر ایک حرکت سکوت ٹھہرے
نہ کہہ سکیں کچھ نہ سن سکیں کچھ
ہر ایک آئینہ اپنی عکاسیوں پہ حیراں ہو اور چپ ہو
نگاہ نظارہ بیں تماشا ہو وحشتوں کا
اجازت جلوہ دے کے جیسے زباں سے گویائی چھین لی جائے
نہ حسن کچھ ہو نہ عشق کچھ ہو
تمام احساس کی ہوائیں تمام عرفان کے جزیرے تمام یہ علم کے سمندر
سراب ہوں وہم ہوں گماں ہوں
یہ لفظ تیشہ ہیں جن سے افکار اپنی صورت تراشتے ہیں
مسیح دست و قلم سے نکلیں تو پھر یہ الفاظ بولتے ہیں
یہی مصور یہی ہیں بت گر یہی ہیں شاعر
یہی مغنی یہی نوا ہیں
یہی پیمبر یہی خدا ہیں
میں کیمیا ہوں یہ کیمیا گر
یہ میرا کلیان چاہتے ہیں
میں ان کی تسخیر کر رہا ہوں
یہ میری تعمیر کر رہے ہیں
نظم
الفاظ
عبید اللہ علیم