EN हिंदी
الف لیلیٰ کی آخری صبح | شیح شیری
alf-e-laila ki aaKHiri subh

نظم

الف لیلیٰ کی آخری صبح

عزیز قیسی

;

فسانہ کیسے بڑھے
نہ کوئی ساحر پژ مردہ سن نہ سوداگر

نہ چین سے کوئی آئے نہ باختر سے کوئی
بلخ کے شہر میں اور قاف کے پرستاں میں

کوئی پری نہ پری زاد کون آئے گا
فسانہ کیسے بڑھے

ولایتوں کے فرستاد گان عشق تو کیا
کنار بحر پہ قزاق بھی نہیں کوئی

عزا کنندۂ شب ہے نہ ہے پیامئ صبح
نہ دشت رہ زد گاں میں ہے سبز پوش کوئی

نہ دیوتا ہے نہ اوتار ہیں نہ پیغمبر
فسانہ کیسے بڑھے

ہزاروں راتوں کی وہ داستاں تمام ہوئی
ہزاروں قصوں کی وہ رات ختم پر آئی

بہانہ کوئی نہیں
بس اب کہ مآل شکست بیاں کی باری ہے

فسانہ کوئی نہیں اب تو جاں کی باری ہے