ہری مسجد کی ہلکی دھوپ میں
تازہ وضو سے گیلے پاؤں
اور ٹپکتی آستینوں کی چمک میں لوگ تھے
جو صف بہ صف
اپنا جنازہ پڑھ رہے تھے
صدر دروازے سے
اک بارود میں ڈوبا ہوا
جنت کا سٹہ باز اور حوروں کا سوداگر
اچانک سہو کا سجدہ ادا کرنے کو آیا!
اور ہری مسجد نے اپنا رنگ بدلا
قرمزی دہلیز پر جتنے بھی جوتے تھے
وہ تازہ خون پر پہلے تو تیرے
اور پھر
جمتے لہو پر جم گئے
میں بچپن میں
کئی ملکوں کے سکے اور ٹکٹیں جمع کرتا تھا
بیاض ذہن کے تاریک پنوں پر
میں اب جسموں کے ٹکڑے جمع کرتا ہوں
مری البم کے صفحوں کی تہوں سے خوں نکلتا ہے
مری آنکھوں سے رستا ہے
نظم
البم
وحید احمد