نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے
سحر کا تارا ہے زلزلے میں افق کی لو تھرتھرا رہی ہے
روش روش نغمۂ طرب ہے چمن چمن جشن رنگ و بو ہے
طیور شاخوں پہ ہیں غزل خواں کلی کلی گنگنا رہی ہے
ستارۂ صبح کی رسیلی جھپکتی آنکھوں میں ہیں فسانے
نگار مہتاب کی نشیلی نگاہ جادو جگا رہی ہے
طیور بزم سحر کے مطرب لچکتی شاخوں پہ گا رہے ہیں
نسیم فردوس کی سہیلی گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے
کلی پہ بیلے کی کس ادا سے پڑا ہے شبنم کا ایک موتی
نہیں یہ ہیرے کی کیل پہنے کوئی پری مسکرا رہی ہے
سحر کو مد نظر ہیں کتنی رعایتیں چشم خوں فشاں کی
ہوا بیاباں سے آنے والی لہو میں سرخی بڑھا رہی ہے
شلوکا پہنے ہوئے گلابی ہر اک سبک پنکھڑی چمن میں
رنگی ہوئی سرخ اوڑھنی کا ہوا میں پلو سکھا رہی ہے
فلک پہ اس طرح چھپ رہے ہیں ہلال کے گرد و پیش تارے
کہ جیسے کوئی نئی نویلی جبیں سے افشاں چھڑا رہی ہے
کھٹک یہ کیوں دل میں ہو چلی پھر چٹکتی کلیو؟ ذرا ٹھہرنا
ہوائے گلشن کی نرم رو میں یہ کسی کی آواز آ رہی ہے؟
نظم
البیلی صبح
جوشؔ ملیح آبادی