EN हिंदी
المیۂ نقد | شیح شیری
alamiya-e-naqd

نظم

المیۂ نقد

ف س اعجاز

;

یہ بے رحم چوٹوں خساروں کی دنیا
یہ کاغذ کے جھوٹے سہاروں کی دنیا

یہ روپیوں کے لالچ کے ماروں کی دنیا
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہر اک جیب چھلنی ہر اک آنکھ پیاسی
ہر اک رخ پہ پھیلی ہوئی بد حواسی

ہو منسوخ روپیوں کی کیسے نکاسی
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہمارا ہے پھر بھی ہمارا نہیں ہے
تصرف پر اپنا اجارا نہیں ہے

بلندی پر اپنا ستارا نہیں ہے
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ خوں اور پسینے کی گاڑھی کمائی
سمجھ میں یہی بات اب تک نہ آئی

بھلا کب غریبوں کے یہ کام آئی
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

پڑی بانجھ ہیں اے ٹی ایم کی مشینیں
گھسیں بینک کی چوکھٹوں پہ جبینیں

قطاروں میں سب چھپ گئی ہیں زمینیں
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو دنیا

سبھی کالے دھن والے ہیں خیریت سے
جہاں ہیں جدھر ہیں وہ ہیں عافیت سے

ملے نہ ملے ان کو اچھی نیت سے
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

چمکدار دھن کالے دھن سے نکالو
غریبوں کو رنج و محن سے نکالو

ہمیں تم ہمارے کفن سے نکالو
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ مزدور یہ عام تاجر یہ مودی
سبھی سادہ لوحوں کی کشتی ڈبو دی

کسی کے بھی پیچھے سے سوئی چبھو دی
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

بڑی شدتیں عورتیں سہہ رہی ہے
کھڑی اپنے اشکوں میں وہ بہہ رہی ہے

رقم لے کے ہاتھوں میں یہ کہہ رہی ہے
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

روپے گھر میں رکھنے کی اچھی سزا ہے
نہ روٹی پکی ہے نہ سالن بنا ہے

کئی دن سے گھر میں نہ چولہا جلا ہے
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

نئے نوٹ کا قد و قامت تو دیکھو
یہ چورن کی پرچی کی شامت تو دیکھو

یہ کاغذ کی پتلی حجامت تو دیکھو
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ ہے بیس سو کا مگر سو سے ہلکا
ہے باریک اتنا کہ سرمہ کھرل کا

کرنسی کی آنکھوں کا پانی ہے ڈھلکا
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہمارے سروں کو فضا میں اچھالو
ہمیں شوق صبر آزما میں اچھالو

یہ بیکار نوٹ اب ہوا میں اچھالو
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہر اک غم کو افراط زر میں بہا لو
معیشت کا ایسا جنازہ نکالو

سیاست کی بھٹی میں سب جھونک ڈالو
یہ روپیہ اگر مل بھی جائے تو کیا ہے