صبح سے میں اس گھڑی کی ٹک ٹک سن رہا ہوں
جو دیوار سے اچانک غائب ہو گئی ہے
لیکن ہر گھنٹے کے اختتام پر
الارم دینے لگتی ہے
اور پھر ٹک ٹک ٹک
کبھی کبھی یہ ٹک ٹک
مجھے اپنے سینے میں سنائی دیتی ہے
کبھی کلائی کی نبض میں
پھر تو جس چیز کو اٹھا کر کان سے لگاتا ہوں
وہ ٹک ٹک کرنے اور الارم دینے لگتی ہے
اچانک میں اپنے عقب کی دیوار کو دیکھتا ہوں
وہاں مجھے یہ گھڑی
دیوار پر اوندھی چپکی دکھائی دیتی ہے
سامنے کی دیوار سے یہ عقب کی دیوار پر کیسے آ گئی
اور اس کی سوئیاں اور ڈائل دیوار سے چپک کیسے گئے
جیسے اس کا وقت دیوار کے اس پار کے لیے ہو
میں برابر کے کمرے میں جاتا ہوں
اب مجھے وقت دکھ رہا ہے
لیکن گھڑی غائب ہے
اب نہ اس کی ٹک ٹک ہے نہ الارم
میں نے چاہا کہ چیزوں کو چھو کر دیکھوں
ٹھیک اس وقت مجھے اندازہ ہوا
میں چیزوں کو دیکھ سکتا ہوں
چھو نہیں سکتا
اس کمرے میں تو میں خود الٹی ہوئی گھڑی ہوں
یہ کمرہ اور وہ کمرہ
دو الگ الگ اکائیاں ہیں
انہیں ایک نہیں کیا جا سکتا
بس اس کمرے میں تھوڑی دیر کے لیے جھانکا جا سکتا ہے
میں واپس اپنے کمرے میں آ جاتا ہوں
وہاں
جہاں میں ہر چیز کو چھو سکتا ہوں
اور ہر چیز میں
وقت کی یہ ٹک ٹک سن سکتا ہوں
چاہے سامنے گھڑی ہو
یا نہ ہو
نظم
الگ الگ اکائیاں
سعید الدین