ہم اجنبی تھے مسافر تھے خانہ ویراں تھے
اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی باتوں نے
بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے
تو اس کی روشنیٔ احمریں کی تابش میں
خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا
کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو
ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش
کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر گرداں
ہماری اپنی صدا اجنبی تھی اپنے لیے
دلوں نے پہلے پہل زیر لب کہا ہم سے
کہ اہل ظرف و غریبان شہر احساسات
ترس رہے ہیں سخن ہائے گفتنی کے لیے
اور اس الاؤ کے شعلوں نے ہم سے باتیں کیں
ہماری گنگ زبانوں کو پھر زبانیں دیں
اور اپنی اپنی سنائیں کہانیاں ہم نے
کہانیاں جو حقیقت میں ایک جیسی تھیں
پھر اس الاؤ نے ہم سے کہا کہ دیوانو
وہ شے جو شعلہ فشاں ہے تمہارے سینوں میں
اسی کو زیست کا روشن الاؤ کہتے ہیں
یہی الاؤ ہے جس نے مہیب راتوں میں
شعور شعلہ طرازی عطا کیا تم کو
اسی الاؤ سے ابھرا ہے آرزو کا فسوں
اسی الاؤ سے سیکھا ہے تم نے اسم جنوں
اور اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ ہم سب نے
یہ ایک عہد کیا تھا اسی الاؤ کے گرد
کہ اس کی آگ میں خاشاک غم جلائیں گے
اور اس الاؤ کو اپنا خدا بنائیں گے
نظم
الاؤ
سحر انصاری