EN हिंदी
اکیلی | شیح شیری
akeli

نظم

اکیلی

بلراج کومل

;

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لیے غیر ہوں

پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں

ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں

میری امی نہیں
میرے ابا نہیں

میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں

میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندا نہیں جس کے سائے تلے

بوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی

گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی

آج کچھ بھی نہیں
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ابا کے آپا کے اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خوں سے

ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں چند مجروح یادوں سے آباد ہیں

آج میری امنگوں کے سوکھے کنول میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں ایک ساز شکستہ کی فریاد ہیں

اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں

تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں

سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

میری امی بنو
میرے ابا بنو

میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو

میرے عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو

میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو