وقت کی جادوگری اک سال میں
ہر گلی ہر موڑ میرے شہر کا
پوچھتا ہے مجھ سے صاحب کون ہو
جس کو اپنا گھر کہا کرتا تھا میں
جس کی ویرانی سے دل مانوس تھا
آج اس کی ایک اک دیوار سے
یہ صدا آتی ہے صاحب کون ہو
کیا یہی گوشہ ہے وہ جس میں مری
سر بہ زانو ان گنت راتیں کٹیں
جس سے اپنا غم کہا کرتا تھا میں
جس میں میرے دل کو ملتا تھا سکوں
آج کیوں اس کی مروت مر گئی
دوستو ایسا بھی کیا اس سال میں
اس قدر خود کو بھلا بیٹھے ہو تم
میں وہی ہوں غور سے دیکھو ذرا
میں جسے تم نے ہزاروں غم دئے
جس کے ہونٹوں کا تبسم آج بھی
تم سے کہتا ہے مجھے پہچان لو
نظم
اجنبی
عابد عالمی