اجنبی رہنے دے مجھ کو، مجھے اپنا نہ بنا
میں تری مانگ ستاروں سے نہیں بھر سکتا
تیرے دامن کو بہاروں سے نہیں بھر سکتا
میری بے رنگ فضاؤں میں کہاں شام و سحر
میرے تاریک گھروندے میں کہاں تیرا گزر
میرے صحرا سے گلستانوں کی امید نہ کر
اجڑی دنیا سے شبستانوں کی امید نہ کر
اجنبی رہنے دے مجھ کو، مجھے اپنا نہ بنا
میری خاطر یہ محل اور یہ محراب نہ چھوڑ
خواب گاہوں کے مسرت سے بھرے خواب نہ چھوڑ
روشنی چھوڑ کے در آ نہ سیہ خانے میں
شمع روشن ہو بھلا کیوں کسی ویرانے میں
میں تجھے کوئی حسیں تاج نہیں دے سکتا
کل تو کل ہے میں تجھے آج نہیں دے سکتا
اجنبی رہنے دے مجھ کو، مجھے اپنا نہ بنا
نظم
اجنبی
صابر دت