EN हिंदी
عجیب ما فوق سلسلہ تھا | شیح شیری
ajib ma-fauq silsila tha

نظم

عجیب ما فوق سلسلہ تھا

رفیق سندیلوی

;

عجیب ما فوق سلسلہ تھا
شجر جڑوں کے بغیر ہی

اگ رہے تھے
خیمے بغیر چوبوں کے

اور طنابوں کے آسرے کے
زمیں پہ استادہ ہو رہے تھے

چراغ لو کے بغیر ہی
جل رہے تھے

کوزے بغیر مٹی کے
چاک پر ڈھل رہے تھے

دریا بغیر پانی کے
بہہ رہے تھے

سبھی دعائیں گرفتہ پا تھیں
رکی ہوئی چیزیں قافلہ تھیں

پہاڑ بارش کے ایک قطرے سے
گھل رہے تھے

بغیر چابی کے قفل
از خود ہی کھل رہے تھے

نڈر پیادہ تھے
اور بزدل

اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر
جنگ لڑ رہے تھے

گناہ گاروں نے سر سے پا تک
بدن کو براق چادروں سے

ڈھکا ہوا تھا
ولی کی ننگی کمر چھپانے کو

کوئی کپڑا نہیں بچا تھا
عجیب ما فوق سلسلہ تھا