EN हिंदी
عجیب لوگ | شیح شیری
ajib log

نظم

عجیب لوگ

شاہد ماہلی

;

عجیب لوگ ہیں
صحرا میں شہر میں گھر میں

سلگتی ریت پہ ٹھٹھرے ہوئے سمندر میں
خلا میں چاند کی بنجر زمیں کے سینے پر

جو صبح و شام کی بے ربط راہ میں چپ چاپ
تعلقات کی تعمیر کرتے رہتے ہیں

ہوا کے دوش پہ طوفان زلزلہ سیلاب
دیا سلائی کی تیلی پہ ٹینک ایٹم بم

کوئی جلوس کوئی پوسٹر کوئی تقریر
امڈتی بھیڑ کا ہر ووٹ کوئی بیلٹ باکس

پھسلتی کرسی کا جادو بسوں کی لمبی کیو،
کہیں پہ صحن میں گوبر کہیں پہ گائے کا سر

ہر ایک گوشہ ہے شمشان قبر ہے بستر
اکیلا پھرتا ہے سنسان شہر میں کرفیو

قریب گھور پہ چھتڑوں میں جسم کے ٹکڑے
مہکتی رات سے جنمی ہوئی فسردہ صبح

بگڑتے بنتے ہوئے زاویے کھسکتی اینٹ
تمام سلسلے بے ربط منقطع رشتے

مگر وہ دوڑتے پیروں پہ اٹھتے بڑھتے ہاتھ
ہر ایک جبر سے بے خوف بے نیازانہ

جو صبح و شام کی بے ربط راہ میں چپ چاپ
تعلقات کی تعمیر کرتے رہتے ہیں

عجیب لوگ ہیں