عجیب ہے یہ سلسلہ
یہ سلسلہ عجیب ہے
ہوا چلے تو کھیتیوں میں دھوم چہچہوں کی ہے
ہوا رکے تو مردنی ہے
مردنی کی راکھ کا نزول ہے
کہاں ہے تو کہاں ہے تو
کہاں نہیں ہے تو بتا
ابھی تھا تیرے گرتے اڑتے آنچلوں کا سلسلہ
اور اب افق پر دور تک
گئے دنوں کی دھول ہے
گئے دنوں کی دھول کا یہ سلسلہ فضول ہے
میں رو سکوں
تو کیا یہ گدلی کائنات دھل سکے گی
میرے آنسوؤں کے جھاگ سے
میں مسکرا سکوں
تو کیا سفر کی خستگی کو بھول کر یہ کارواں نجوم کے
برس پڑیں گے موتیے کے پھول بن کے
اس مہیب کاسۂ حیات میں
نہ تو سنے نہ میں کہوں
نہ میرے انگ انگ سے صدا اٹھے
یوں ہی میں آنسوؤں کو قہقہوں کو
اپنے دل میں دفن کر کے
گم
لبوں پہ سل دھرے
ترے نگر میں پا پیادہ پا برہنہ
شام کے فشار تک رواں رہوں
مگر کبھی
تری نظر کے آستاں کو
پار تک نہ کر سکوں
کہ تو ازل سے تا ابد
ہزار صد ہزار آنکھ والے وقت
کی نقیب ہے
یہ سلسلہ عجیب ہے
یہ سلسلہ عجیب ہے
نظم
عجیب ہے یہ سلسلہ
وزیر آغا