چٹانیں بول سکتی ہیں
چٹانیں راز اپنے کھول سکتی ہیں
دکھا سکتی ہیں یہ تقدیس کی دنیائے نا پیدا
جہاں پر فکر و فن عزلت نشیں کی خانقاہیں ہیں
جہاں احساس کی اندھی گپھائیں ہیں
وہ کس کی انگلیاں تھیں جن کے لمس سحر آگیں نے
انہیں اذن سخن بخشا
وہ کس کی گرمی دل تھی کہ جس نے ان کو تن بخشا
یہاں ہر شخص آئے گا
مگر اس کو نہ پائے گا
اسے ڈھونڈو وہ شاید ان چٹانوں میں چھپا ہوگا
یہ پہلی شرط تھی ان کے تکلم کی
کہ جو بھی ان کے اسرار مقفل ڈھونڈنے آئے
وہ خود ان میں سما جائے
نظم
اجنتا
منیب الرحمن