سفید اور سیاہ گوٹوں کے حسیں اک دائرے اندر
بہت ہی سرخ رنگت کی حسیں اک گوٹ ہوتی ہے
کہ جس کو رانی کہتے ہیں
ہر اک کھیلنے والے کی بس اک ہی تمنا ہے
اسی کیرم کے کونوں میں جو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں
انہیں آباد کرنا ہے کنیزوں سے اور رانی سے
کھلاڑی چال چلتا ہے اسٹرایکر کی مدد سے
آمد و رفت ان کنیزوں کی
لگی رہتی ہے کمروں میں
کہیں گوری کہیں کالی کبھی رانی
عجب ہے کھیل کیرم کا
ہر اک یاں کھیلنے والا اسی دھن میں ہے سرگرداں
اسی کاوش میں رہتا ہے
کسی طرح سے رانی کو وہ اس جانب کو لے جائے
جو اس کی جیت کا گھر ہے ہے مسکن اس کی فتح کا
محل جو ہے تمنا کا جو اس کی راجدھانی ہے
جہاں پہ جا کے یہ رانی اسی کی ہو کے رہ جائے
عجب ہے کھیل کیرم کا
ادھر رانی کی شرطیں ہیں کرے گا جو بھی پوری یہ
تو رانی تب ہی جائے گی
لو اس کی شرط بھی سن لو کہ
کنیز خاص کو لے کر ہی رانی آپ کی ہوگی
کرے گی کمرے کا رخ جب کنیز خاص ہم راہ ہو
سیاہ ہو چاہے گوری ہو مگر وہ ساتھ میں جائے
عجب ہے کھیل کیرم کا
مجھے رانی کی شرطوں پر بڑا ہی پیار آیا ہے
کھلاڑی تو نہیں رانی مگر رانی تو ہے آخر
ہما فتح و نصرت کا
اور اکثر کامرانی کا
اسی کے سر پہ جاتا ہے
کہ جس کے پاس رانی ہے
کئی طرح سے دیکھو تو
بہت ہیں زاویے اس میں
بہت اسباق ہیں اس میں
دریچے ذہن کے کھولے
عجب ہے کھیل کیرم کا
کبھی رانی کے ہوتے بھی
شکست فاش ہوتی ہے
کبھی رانی کے ہونے سے
مقدر جگمگا اٹھے
مظفر آپ کو کر دے
کبھی رانی تو ملتی ہے مگر
تم ہار جاتے ہو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کوئی رانی کو نہ پا کر
بھی تم سے جیت جاتا ہے
عجب ہے کھیل کیرم کا
نظم
عجب ہے کھیل کیرم کا
ابن مفتی