ہو کے سرشار بہت عشق سے گائیں ہولی
اک نئے رنگ سے اپنوں کو سنائیں ہولی
لے کے آئی ہے عجب مست ادائیں ہولی
ملک میں آج نئے رخ سے دکھائیں ہولی
آج ہر شخص کو دیتی ہے صدائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
ملک سے فرقہ پرستی کو ہٹا ہی ڈالو
دیر و کعبہ کے تفرقہ کو مٹا ہی ڈالو
ہند کو دیش محبت کا بنا ہی ڈالو
یہ نیا گیت زمانے کو سنا ہی ڈالو
ڈال دے ملک میں الفت کی بنائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
جو محبت کے بزرگوں نے جلائے تھے دئے
پاپ کی تیز ہواؤں سے وہ اب بجھنے لگے
آج پرہلاد کے بھی ہونٹ نہیں کیوں ہلتے
ہر طرف پوجنے والے ہیں کنول کشیپ کے
کاش بن جائے گناہوں کی چتائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
ہر طرف بہنے لگے امن و سکوں کا دریا
کاش آ جائے بزرگوں کا سمے گزرا ہوا
رنگ ہم سب کو بدلنا ہے اگر بھارت کا
آپسی پھوٹ سے ہے دیش کو پھر سے خطرہ
ہم کو لازم ہے کہ نفرت کی جلائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
اپنے بھارت سے غریبی کو مٹانا ہے ہمیں
اپنی محنت سے نئے دور کو لانا ہے ہمیں
دیش میں ناج کا انبار لگانا ہے ہمیں
کارخانوں میں ہر اک چیز بنانا ہے ہمیں
ساز محنت پہ نئے طرز سے گائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
ہند کو آج محبت کی ضرورت ہے کنولؔ
آج ہر شخص کو الفت کی ضرورت ہے کنولؔ
اب کسانوں کو بھی ہمت کی ضرورت ہے کنولؔ
ملک کو اب اسی دولت کی ضرورت ہے کنولؔ
دے رہی ہے یہی ہر اک کو صدائیں ہولی
دوستو آؤ چلو ایسی منائیں ہولی
نظم
ایسی منائیں ہولی
کنولؔ ڈبائیوی