EN हिंदी
ایسا بھی نہیں کہ | شیح شیری
aisa bhi nahin ki

نظم

ایسا بھی نہیں کہ

احمد ہمیش

;

ایسا بھی نہیں کہ مجھے زندگی کے پیڑ کے پاس
بے آس اور بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہو

میں نے ابھی ابھی گلہریوں کی آواز سنی ہے
گلہریاں میرے لئے

بہشت کے اخروٹ لا رہی ہیں
سوائے اس کے کہ آدم زاد کہیں دکھائی نہیں دیتا

مگر جنگل بول رہا ہے کہ اس کے بول میں
میری بچھڑی ہوئی آواز شامل ہے

میرے بال بچوں کا پیار شامل ہے
سوائے اس کے کہ جن لوگوں نے مجھے بے نام

جزیروں میں لے جانے کا وعدہ کیا تھا
وہ اب کہیں دکھائی نہیں دیے

تو اب میں کس سے کہوں
کہ کہنے سننے والا زندگی کا نظام تو باقی نہیں رہا

اوائے اس کے کہ مٹی کہہ رہی ہے
کہ وہ ان گنت پیڑ پودے تب اگائے گی

جب میں یہاں ہوں گا ہی نہیں