میں نے دکھ نہیں دیکھا
میں نے کچھ نہیں دیکھا
میں نے سکھ نہیں دیکھا
میں نے کچھ نہیں دیکھا
دنیا میری ہتھیلی سے باہر کیا رہی ہوگی میں نے دیکھا
زمین پر شاید سیلاب آیا تھا
میں نے دیکھا کہ دھوپ چونکی
اور بھاگ کر درختوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئی اس کا رنگ فق تھا
اور اس کی عمر تیرہ برس سے زیادہ نہ تھی
سیلاب نے اس کے پاؤں چھو لئے اسے پھر بھی یقین نہیں آیا
جیسے کہہ رہی ہو
جاؤ مجھے اپنے یقینی پر کبھی یقین نہیں آیا
بے ایمان آدمی کی طرح
میں بے یقین ہوں
یہ لوگ کہانی سناتے سناتے رک جاتے ہیں
اور خاموشی کو سناتے سناتے رک جاتے ہیں
جیسے تیر آرزو ہوا اور پرندہ چھدے ہوئے ترچھے زاویے بنا کر
زن سے گزر گئے ہوں
اور جیسے ان سب کو ایک نظر میں سب نے دیکھ لیا ہو
جن سمندروں پر یہ پرندے گریں گے
وہاں بہت شور ہوگا
اور لوگ کہانیوں کو امانت کر کے دریا میں بہا دیتے ہوں گے
یہ لوگ تمباکو کے پتوں میں اپنے دل لپیٹ کر بو دیتے ہوں گے
رات نہائی ہوئی کبوتری کی طرح میری کھڑکی میں آ بیٹھتی ہے
اور دیتے سے باتیں کرنے لگتی ہے
میں منافقت کو چیر کر پار نکل جانا چاہتی ہوں
رات جو مقتولوں کے خون کو سیاہ اور سرد کر دیتی ہے
اور قاتلوں کو پناہ دیتی ہے
رات جو قاتلوں کو پناہ دیتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ دھو لیں
دن جو سلامتی پر لعنت بھیجتا ہے طلوع ہوتا ہے
اور رنگے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ لیتا ہے
اور ان کے چہروں کو ننگا کر دیتا ہے جن کی آنکھوں میں
مرنے والوں کی شبیہیں جم گئیں ہوتی ہیں
تاکہ ہونے والے مقتول ان کا بدلہ لے سکیں
دن جو رات کو چاک کر کے طلوع ہوتا ہے
سر عام انہیں پھانسی کا اعلان کرتا ہے
سر عام اپنی سزا کا اعلان سنتا ہے
دن جس کو بچوں نے لباس کیا
اور سورج کھیل گئے
نظم
عین الیقین
نسرین انجم سیٹھی