EN हिंदी
اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل | شیح شیری
ai zamistan ki hawa tez na chal

نظم

اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل

اسلم انصاری

;

اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
اس قدر تیز نہ ہو موج سبک خیز کی رو

کہیں اشجار کے خیموں کی طنابیں کٹ جائیں
زرد پتے ہیں ابھی گلشن ہستی کا سنگھار

کہہ رہی ہے یہ ابھی عہد گذشتہ کی بہار
رنگ رفتہ ہوں مگر آج بھی تصویر میں ہوں

مرتسم ہیں مری شاخوں پہ مری یاد کے چاند
میں ہنوز اپنے خیالات کی زنجیر میں ہوں

ابھی پتوں پہ چمک اٹھتا ہے رنگوں کا غبار
ابھی شاخوں میں لہک جاتی ہے بلبل کی پکار

برگ ریزاں سے کہو شہر سے باہر ٹھہرے
شہر کے باغ سے بستان دبستاں سے پرے

برگ لرزاں میں تڑپتا ہے ابھی ذوق نمو
پر طاؤس میں ہے رقص کی خواہش اب بھی

ابھی کرتا ہے چمن چاک گریباں کو رفو
یوں تو قانون ہیں فطرت کے اٹل

اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
سعئ ملبوس میں ہیں کتنے نگوں بخت زبوں

زندگی جن کے لئے صحن سمن پوش نہیں
دور کے دیس سے آئی ہوئی اترن کے لئے

مرد و زن کوچہ و بازار میں رسوا ہیں ابھی
جیسے ہو قہر مجسم تری یخ بستہ جبیں

تیری آہٹ میں ہو جیسے کسی دہشت کا پیام
تیری دستک سے لرزتے ہیں مکاں اور مکیں

وہ مکاں جن کے در و بام در و بام نہیں
وہ مکیں جن کے لئے عشرت ایام نہیں

جن کے لہجوں میں نہیں لذت گفتار کا رنگ
جن کی آواز میں ہیں تیرہ نصیبی کے عذاب

جن سے تہذیب لیا کرتی ہے جینے کا خراج
جن کی ہر سانس ہے اندیشۂ فردا کا نصاب

اس قدر تند نہ ہو دیکھ سنبھل
اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل