EN हिंदी
اے صبح وطن | شیح شیری
ai subh-e-watan

نظم

اے صبح وطن

ساغر نظامی

;

اے صبح وطن اے صبح وطن
اے روح بہار اے جان چمن

اے مطرب یا اے ساقئ من
اے صبح وطن اے صبح وطن

لے جوش جنوں کی ضربوں نے زنجیر غلامی توڑ ہی دی
جمہور کے سنگیں پنجے نے شاہی کی کلائی موڑ ہی دی

تاریخ کے خونیں ہاتھوں سے چھینا ہے ترا سیمیں دامن
اے صبح وطن اے صبح وطن

پھر لوٹ کے آیا صدیوں میں اقبال و طرب کا سیارہ
کرنوں میں افق پر پھر چمکا پستی کے اندھیروں کا مارا

حیراں حیراں نازاں نازاں خنداں خنداں روشن روشن
اے صبح وطن اے صبح وطن

دھرتی کے تبسم سے چمکے آفاق ابد کے سیارے
ظلمت کے ترنم سے پھوٹے نور ابدیت کے دھارے

ذروں کو تغیر نے بخشا اک معجزۂ خورشید شکن
اے صبح وطن اے صبح وطن

سوئے ہوئے ذرے جاگ اٹھے انوار سحر بیدار ہوئے
احساس زمیں بیدار ہوا افکار بشر بیدار ہوئے

بستر سے خذف ریزے اٹھے اور لعل و گہر بیدار ہوئے
آنکھوں کو ملا گلزاروں نے شاخوں پر ثمر بیدار ہوئے

نینوں سے مستی برساتی لو جاگ اٹھی ہستی کی دولہن
اے صبح وطن اے صبح وطن

بنجر دھرتی کی نس نس میں پودوں کا تخیل لہرایا
اجڑے کھیتوں پر سایہ ہے گیہوں کے سنہری خوشوں کا

ہر برگ فسردہ نے کھینچا دوشیزہ بہاروں کا دامن
اے صبح وطن اے صبح وطن

سنسان بیابانوں میں ہے اک جذبۂ گلشن آرائی
ویراں کھنڈروں میں لیتا ہے محلوں کا تصور انگڑائی

سیپی کی رو پہلی جھولی میں ہیں آج ہزاروں در عدن
اے صبح وطن اے صبح وطن

ذرات میں کروٹ لینے لگے سو لالہ رخسان و ماہ جبیں
سنگین چٹانوں میں جاگے اصنام کے خد و خال حسیں

ہے دیر کہ کعبہ کیا جانے ہے کون سا عالم زیر زمیں
مسجود نہیں ہے کوئی بھی سجدے میں مگر جھکتی ہے جبیں

نقاش ہے تیری پرچھائیں آذر ہے ترے سورج کی کرن
اے صبح وطن اے صبح وطن

آہن کی صلابت میں ابھرا معصوم تصور نرمی کا
پھولوں کی لطافت میں امڈا آہن بن جانے کا جذبہ

قرنوں کی خموشی کو حسرت ہے سیل بیاں بن جانے کا
صدیوں کی اداسی کو ضد ہے اک نطق جواں بن جانے کا

ہر سانس کے اندر غلطاں ہے تغییر کے سینے کی دھڑکن
اے صبح وطن اے صبح وطن

پربت پربت ساگر ساگر پرچم اپنا لہراتا ہے
محلوں پہ ملوں پہ قلعوں پر عظمت کے ترانے گاتا ہے

گل بار ردائے آزادی سرشار جوانی کا پرچم
یہ امن کے نغموں کا مطرب خاموش بغاوت کا یہ علم

تہذیب کا یہ زریں آنچل تعمیر کا یہ رنگیں دامن
اے صبح وطن اے صبح وطن

قندیل سحر نور منزل خورشید سحر شمع ساحل
یہ خون شہیداں کا مخزن یہ درد رفیقاں کا حاصل

یہ امن کا لہراتا گیسو یہ صدق و محبت کا درپن
اے صبح وطن اے صبح وطن

اب کھیتوں میں گندم ہی نہیں سونا بھی اگے گا اے ساقی
بخشے گا تغیر بھوکوں کو اک روز مزاج زراتی

اب ہیرے موتی اگلیں گے یہ باغ و صحرا کوہ و دمن
اے صبح وطن اے صبح وطن

گاؤں کو سنائیں گے مژدہ احصار حسیں بن جانے کا
ذروں کو سندیسہ دیں گے تڑپ کر مہر جبیں بن جانے کا

اور تیرے افق کی لالی سے ہوتے ہیں ستارے بھی روشن
اے صبح وطن اے صبح وطن

اب خاک قدم مجبوروں کی برسائے گی دنیا پر سونا
اب اطلس کی قسمت ہوگی پیراہن محنت کش ہونا

پڑتے ہی نگاہ صاعقۂ زن جل اٹھے گا ہر نظم کہن
اے صبح وطن اے صبح وطن

کھیتوں کی زمیں اونچی ہو کر فردوس سے رشتہ جوڑے گی
اب ہل کی انی سرمستی میں آکاش کے تارے توڑے گی

وہ دن بھی اب کچھ دور نہیں جب سیارے ہوں گے آنگن
اے صبح وطن اے صبح وطن