EN हिंदी
اے مرے سوچ نگر کی رانی | شیح شیری
ai mere soch-nagar ki rani

نظم

اے مرے سوچ نگر کی رانی

ابن انشا

;

تجھ سے جو میں نے پیار کیا ہے تیرے لیے؟ نہیں اپنے لیے
وقت کی بے عنوان کہانی کب تک بے عنوان رہے

اے مرے سوچ نگر کی رانی اے مرے خلد خیال کی حور
اتنے دنوں جو میں گھلتا رہا ہوں تیرے بنا یونہی دور ہی دور

سوچ تو کیا پھل مجھ کو ملا میں من سے گیا پھر تن سے گیا
شہر وطن میں اجنبی ٹھہرا آخر شہر وطن سے گیا

روح کی پیاس بجھانی تھی پر یہاں ہونٹوں کی پیاس بھی بجھ نہ سکی
بچتے سنبھلتے بھی ایک سلگتا روگ بنی مرے جی کی لگی

دور کی بات نہ سوچ ابھی مرے ہات میں تو ذرا ہات تو دے
تجھ سے جو میں نے پیار کیا ہے تیرے لیے؟ نہیں اپنے لیے

باغ میں ہے اک بیلے کا تختہ بھینی ہے اس بیلے کی سگندھ
اے کلیو کیوں اتنے دنوں تم رکھے رہیں اسے گود میں بند

کتنے ہی ہم سے روپ کے رسیا آئے یہاں اور چل بھی دیئے
تم ہو کہ اتنے حسن کے ہوتے ایک نہ دامن تھام سکے

صحن چمن پر بھونروں کے بادل ایک ہی پل کو چھائیں گے
پھر نہ وہ جا کر لوٹ سکیں گے پھر نہ وہ جا کر آئیں گے

اے مرے سوچ نگر کی رانی وقت کی باتیں رنگ اور بو
ہر کوئی ساتھ کسی کا ڈھونڈے گل ہوں کہ بیلے میں ہوں کہ تو

جو کچھ کہنا ہے ابھی کہہ لے جو کچھ سننا ہے سن لے
تجھ سے جو میں نے پیار کیا ہے تیرے لیے؟ نہیں اپنے لیے

دل کی نہ پوچھو کیا کچھ چاہے دل کا تو پھیلا ہے دامن
گیت سے گال غزل سی آنکھیں ساعد سیمیں برگ دہن

جوڑے کے انہیں پھولوں کو دیکھو کل کی سی ان میں باس کہاں
ایک اک تارا کر کے ڈوبی ماتھے کی طناز افشاں

سہنے کا دکھ سہ نہ سکے ہم کہنے کی باتیں کہہ نہ سکے
پاس ترے کبھی آ نہ سکے ہم دور بھی تجھ سے رہ نہ سکے

کس سے کہے اب روح کی بپتا کس کو سنائے من کی بات
دور کی راہ بھٹکتا راہی جیون رات گھنیری رات

ہونٹوں کی پیاس بجھانی ہے اب ترے جی کو یہ بات لگے نہ لگے
تجھ سے جو میں نے پیار کیا ہے؟ تیرے لیے نہیں اپنے لیے