EN हिंदी
اے متوالو! ناقوں والو!! | شیح شیری
ai matawalo! naqon walo!!

نظم

اے متوالو! ناقوں والو!!

ابن انشا

;

اے متوالو ناقوں والو دیتے ہو کچھ اس کا پتا
نجد کے اندر مجنوں نامی ایک ہمارا بھائی تھا

آخر اس پر کیا کچھ بیتی جانو تو احوال کہو
موت ملی یا لیلیٰ پائی؟ دیوانے کا مآل کہو

عقل کی باتیں کہنے والے دوستوں نے اسے سمجھایا
اس کو تو لیکن چپ سی لگی تھی نا بولا نا باز آیا

خیر اب اس کی بات کو چھوڑو دیوانا پھر دیوانا
جاتے جاتے ہم لوگوں کا ایک سندیسا لے جانا

آوارہ آوارہ پھرنا چھوڑ کے منڈلی یاروں کی
دیکھ رہے ہیں دیکھنے والے انشاؔ کا اب حال وہی

کیا اچھا خوش باش جواں تھا جانے کیوں بیمار ہوا
اٹھتے بیٹھتے میر کی بیتیں پڑھنا اس کا شعار ہوا

طور طریقہ اکھڑا اکھڑا چہرا پیلا سخت ملول
راہ میں جیسے خاک پہ کوئی مسلا مسلا باغ کا پھول

شام سویرے بال بکھیرے بیٹھا بیٹھا روتا ہے
ناقوں والو! ان لوگوں کا عالم کیسا ہوتا ہے

اپنا بھی وہ دوست تھا ہم بھی پاس اس کے بیٹھ آتے ہیں
ادھر ادھر کے قصے کہہ کے جی اس کا بہلاتے ہیں

اکھڑی اکھڑی بات کرے ہے بھول کے اگلا یارانا
کون ہو تم کس کام سے آئے؟ ہم نے نہ تم کا پہچانا

جانے یہ کس نے چوٹ لگائی جانے یہ کس کو پیار کرے
تمہی کہو ہم کس کو ڈھونڈیں آہیں کھینچے نام نہ لے

پیت میں ایسے جان سے یارو کتنے لوگ گزرتے ہیں
پیت میں ناحق مر نہیں جاتے پیت تو سارے کرتے ہیں

اے متوالو ناقوں والو! نگری نگری جاتے ہو
کہیں جو اس کی جان کا بیری مل جائے یہ بات کہو

چاک گریباں اک دوانہ پھرتا ہے حیراں حیراں
پتھر سے سر پھوڑ مرے گا دیوانے کو صبر کہاں

تم چاہو تو بستی چھوڑے تم چاہو تو دشت بسائے
اے متوالو ناقوں والو ورنہ اک دن یہ ہوگا

تم لوگوں سے آتے جاتے پوچھیں گے انشاؔ کا پتا