اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم
اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم
یہ محلات یہ اونچے اونچے مکاں
ان کی بنیاد میں ہے ہمارا لہو
کل جو مہمان تھے گھر کے مالک بنے
شاہ بھی ہے عدو شیخ بھی ہے عدو
کب تلک ہم سہیں غاصبوں کے ستم
اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم
اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم
اتنا سادہ نہ بن تجھ کو معلوم ہے
کون گھیرے ہوئے ہے فلسطین کو
آج کھل کے یہ نعرہ لگا اے جہاں
قاتلو رہزنو یہ زمیں چھوڑ دو
ہم کو لڑنا ہے جب تک کہ دم میں ہے دم
اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم
اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم
نظم
اے جہاں دیکھ لے!
حبیب جالب