یہ اجلی سی زمیں نظروں کی حد سے اور آگے تک
شجر پھیلے چلے جاتے ہیں اپنی حد سے آگے تک
مرے کمرے کی سب چنگاریاں شاخوں پہ چمکی ہیں
مرے بالوں پہ بکھری ہیں مرے آنچل سے سمٹی ہیں
سحر کی پھوٹتی کرنیں تڑپ آئی دریچے سے
لپٹ کر کھیلتی ہیں میرے گھر کے فرش مخمل سے
تعیش کے ہر اک سامان پر اک نور بکھرا ہے
یہ بے رنگی پہ ست رنگی دھنک کا جال پھیلا ہے
بہت آہستہ آہستہ میرے کانوں سے یہ کہتی ہیں
بتا اب کیوں مری آنکھیں تجھے بے جان لگتی ہیں
یہ کس کی فکر میں تم ہو یہ کس کی کھوج میں تم ہو
میں سمجھی اپنے ان گزرے دنوں کی سوچ میں تم ہو
چلو ڈھونڈو انہیں اپنے خیالوں اپنے خوابوں میں
کہیں طاقوں پہ اب رکھی ہوئی پچھلی کتابوں میں
پیالی چائے کی ٹیبل پہ رکھ کے سرنگوں اٹھی
خیالوں اور خوابوں کی وہ دنیا ڈھونڈنے نکلی
وہ سوہا رنگ جس میں اماں میری ساری رنگتی تھیں
وہ افشاں ابرقوں کی جو ستاروں سی چمکتی تھیں
وہ مہندی جس کی سرخی سے کوئی سرخی نہ ملتی تھی
وہ مسی جس سے بو بیلی چنبیلی کی نکلتی تھی
مری ہم راز کرنیں تجھ کو میں اب کیسے سمجھاؤں
تیری آغوش کو ان خوشبوؤں سے کیسے مہکاؤں
یہ اجلی اور ٹھنڈی دھوپ میں پھیلی ہوئی شاخیں
میں ان برفیلی شاخوں میں کہاں سے پھول لے آؤں
نظم
اے ہم راز
صوفیہ انجم تاج