EN हिंदी
اے فیری ٹیل | شیح شیری
ai fairy-tail

نظم

اے فیری ٹیل

حسن اکبر کمال

;

کبھی بچپن میں جو پڑھتے تھے پریوں کی کہانی میں
پری کوئی طلسماتی اثر سے

نیم شب سارے کھلونوں کو
بدل دیتی تھی جیتی جاگتی مخلوق میں

اب یوں ہوا
ایسے ہی نادیدہ اثر نے

ایک گھر میں
کچھ کھلونوں کو عطا کی زندگی

اور لمحہ بھر میں ان کو ہنسنے بولنے
اور صبح کی پہلی کرن تک

زندہ رہنے پر کیا قادر
انہی میں ایک تھا ایسا کھلونا

جو کھلونوں سے بھرے کمرے میں تنہا تھا
اسے بچے کبھی آغوش میں لیتے

کبھی ٹھوکر لگاتے تھے
اسے صوفے کے پیچھے پھینکتے اور بھول جاتے تھے

یہ ان کا کھیل تھا اور اس کی قسمت
آج وہ مظلوم بھی پل بھر میں زندہ ہو گیا تھا

وہ کھلونا
اب کوئی درد آشنا بے لوث ساتھی چاہتا تھا

اس نے اپنے پاس ہی رکھی ہوئی
گڑیا کی جانب

دوستی کا ہاتھ پھیلایا
مگر گڑیا لرز کر ہٹ گئی پیچھے

کہ جیسے کوئی دست طفل ناداں
اس کی جانب بڑھ رہا ہو

جو اسے ایذا بھی دے گا
اور شاید توڑ بھی دے گا

اسے بے مہر بچوں سے
جو دکھ ملتے رہے تھے

ان کی تلخی نے
اسے اچھے برے کے فرق سے

اور سچے جذبوں کی پذیرائی سے بیگانہ کیا تھا
وہ شاید رشتۂ احساس کی اس مہرباں تاثیر سے نا آشنا بھی تھی

جو آنکھوں میں چمک اور زندگی میں رنگ بھرتی ہے
شکستہ دل کھلونا ہاتھ واپس کھینچ کر

اب صبح کی پہلی کرن کا منتظر ہے
جب فسوں ٹوٹے اور اس سے زندگی چھن جائے

وہ پھر ایک بے احساس اور بے جان شے بن جائے