EN हिंदी
اے دل بے خبر | شیح شیری
ai dil-e-be-KHabar

نظم

اے دل بے خبر

امجد اسلام امجد

;

اے دل بے خبر
جو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی

جو شجر ٹوٹ جاتا ہے پھلتا نہیں
واپسی موسموں کا مقدر تو ہے

جو سماں بیت جائے پلٹتا نہیں
جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر

اب کسے ڈھونڈھتا ہے سر رہ گزر
اے دل کم نظر اے مرے بے خبر اے مرے ہم سفر

وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا
چاندنی تھا ہوا صرف رنگ قمر

خواب تھا آنکھ کھلتے ہی اوجھل ہوا
پیڑ تھا رت بدلتے ہوا بے ثمر

اے دل بے اثر اے مرے چارہ گر
یہ ہے کس کو خبر!

کب ہوائے سفر کا اشارہ ملے!
کب کھلیں ساحلوں پر سفینوں کے پر

کون جانے کہاں منزل موج ہے!
کس جزیرے پہ ہے شاہ زادی کا گھر اے مرے چارہ گر

اے دل بے خبر کم نظر معتبر
تو کہ مدت سے ہے زیر بار سفر

بے قرار سفر
ریل کی بے ہنر پٹریوں کی طرح

آس کے بے ثمر موسموں کی طرح
بے جہت منزلوں کی مسافت میں ہے

رستہ بھولے ہوئے رہرووں کی طرح
چوب نار سفر

اعتبار نظر کس گماں پر کریں
اے دل بے بصر

یہ تو ساحل پہ بھی دیکھتی ہے بھنور
ریت میں کشت کرتی ہے آب بقا

کھولتی ہے ہواؤں میں باب اثر
تجھ کو رکھتی ہے یہ زیب دار سفر بے قرار سفر

اے دل بے ہنر
گرم سانسوں کی وہ خوشبوئیں بھول جا

وہ چہکتی ہوئی دھڑکنیں بھول جا
بھول جا نرم ہونٹوں کی شادابیاں

حرف اقرار کی لذتیں بھول جا
بھول جا وہ ہوا بھول جا وہ نگر

کون جانے کہاں روشنی کھو گئی
لٹ گیا ہے کہاں کاروان سحر

اب کہاں گیسوؤں کے وہ سائے کہاں
اس کی آہٹ سے چمکے ہوئے بام و در اے دل بے بصر

رنگ آسودگی کے تماشے کہاں
جھٹپٹا ہے یہاں رہ گزر رہ گزر

وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا
اب کسے ڈھونڈھتا ہے ارے بے خبر

جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر
اے دل کم نظر اے مرے چارہ گر اے مرے ہم سفر