خراماں خراماں چلی آ رہی ہے
نگاہوں پہ اک حسن سے چھا رہی ہے
ہر اک گام پر نور بکھرا رہی ہے
افق پر وہ پرچم کو لہرا رہی ہے
اہنسا کی پہلی سنہری کرن
ملی کیمیا گر کو آخر وہ بوٹی
کہ جس سے علائق کی زنجیر ٹوٹی
شب تار میں جیسے مہتاب چھوٹی
تجلی کے پردے سے پھوٹی وہ پھوٹی
اہنسا کی پہلی سنہری کرن
نیا روپ ہستی نے پیدا کیا ہے
ہر اک دل میں اک ولولہ بھر رہا ہے
مصیبت کا احساس ہمت فزا ہے
کہ ارباب بینش کی اب رہنما ہے
اہنسا کی پہلی سنہری کرن
زمین و زماں ہم نوا ہو رہے ہیں
کہ دل والے تخم وفا بو رہے ہیں
وہی پا رہے ہیں جو کچھ کھو رہے ہیں
جگائے گی ان کو بھی جو سو رہے ہیں
اہنسا کی پہلی سنہری کرن
نظم
اہنسا کی پہلی سنہری کرن
اثر لکھنوی