EN हिंदी
اگر قریب سے دیکھو | شیح شیری
agar qarib se dekho

نظم

اگر قریب سے دیکھو

چندر بھان خیال

;

اگر قریب سے دیکھو تو جان لو گی تم
جہاں ہے سانپ کی صورت وجود سے لپٹا

نہ کارواں نہ منازل نہ رہ گزر نہ سفر
حیات جیسے کھڑا ہو کوئی شجر تنہا

دلوں میں پیاس تڑپتی ہے رات دن اپنے
بھری ہوئی ہے الم ناک یاس آنکھوں میں

سیاہ بھوتوں کی مانند جاگ اٹھتے ہیں
یہ بے سکوں سے مناظر اداس آنکھوں میں

تمہیں ہے خوف کہ جوالا بھڑک اٹھے نہ کہیں
میں سوچتا ہوں جلا دوں کسی طرح خود کو

تمہیں ہے فکر کہ جینے کا آسرا ہو کوئی
میں چاہتا ہوں مٹا دوں کسی طرح خود کو

رقیق آگ نے سینوں کو راکھ کر ڈالا
وجود کانپ رہے ہیں شکست کھائے ہوئے

کوئی پہاڑ کوئی بن تلاش کرتے ہیں
دماغ بار مصائب کا غم اٹھائے ہوئے

پگھل رہے ہیں اصولوں کے آہنی پیکر
حصار کرب کی سلگی ہوئی فصیلوں پر

کچھ اس طرح ہیں شب و روز گرد آلودہ
ٹنگے ہوں جیسے پرانے لباس کیلوں پر

اگر قریب سے دیکھو تو دل کی بستی میں
نہ حوصلے نہ امنگیں نہ گرمیاں باقی

گناہ گار فضاؤں کی قتل گاہوں میں
حقیقتوں کا پتہ ہے نہ داستاں باقی