EN हिंदी
اگر کہیں پر لکھا ہوا ہے | شیح شیری
agar kahin par likha hua hai

نظم

اگر کہیں پر لکھا ہوا ہے

سید مبارک شاہ

;

لکھا ہوا ہے
''کسی کا لکھا نہیں رہے گا''

جو حرف دیمک سے بچ رہیں گے
انہیں ہواؤں نے چاٹنا ہے

کوئی زباں کو قلم بھی کر لے تو کیا کرے گا
ابھی تو ہم نے قلم کے ہونٹوں کا کاٹنا ہے

نہ کوئی نقطہ نہ حرف کوئی
نہ لفظ ہوگا نہ سطر ہوگی

سطور کیا ہیں؟
اس انتشار سخن میں بین السطور کچھ بھی نہیں رہے گا

تمہارا عجز بیاں، بیاں کا غرور کچھ بھی نہیں رہے گا
تم اس گھڑی جو سنا رہے ہو

یہ نظم باقی نہیں رہے گی
یہ نظم کیا ہے کوئی تکلم کی بزم باقی نہیں رہے گی

یہ لفظ کانٹوں کی فصل ہیں اور
کسی کو کانٹے کشید کرنے سے کیا ملے گا

تمہیں اذیت رہ سخن میں مزید کرنے سے کیا ملے گا
اگر کہیں پر لکھا ہوا ہے

تو لکھ رہا ہوں
کہ بے ثباتی کی خو بقا کی سرشت میں ہے

''کسی کا لکھا نہیں رہے گا'' تو آپ حد نوشت میں ہے