EN हिंदी
اگر ہم گیت نہ گاتے | شیح شیری
agar hum git na gate

نظم

اگر ہم گیت نہ گاتے

افضال احمد سید

;

ہمیں معنی معلوم ہیں
اس زندگی کے

جو ہم گزار رہے ہیں
ان پتھروں کا وزن معلوم ہے

جو ہماری بے پروائی سے
ان چیزوں میں تبدیل ہو گئے

جن کی خوبصورتی میں
ہماری زندگی نے کوئی اضافہ نہیں کیا

ہم نے اپنے دل کو
اس وقت

قربان گاہ پر رکھے جانے والے پھولوں میں
محسوس کیا

جب ہم
زخمی گھوڑوں کے جلوس کے پیچھے چل رہے تھے

شکست ہمارا خدا ہے
مرنے کے بعد ہم اسی کی پرستش کریں گے

ہم اس شخص کی موت مریں گے
جس نے تکلیفوں کے بعد دم توڑا

زندگی کبھی نہ جان سکتی
ہم اس سے کیا چاہتے تھے

اگر ہم گیت نہ گاتے