اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
جہاں سے پھول ٹوٹا تھا وہیں سے
کلی سی اک نمایاں ہو رہی ہے
جہاں بجلی گری تھی اب وہی شاخ
نئے پتے پہن کر تن گئی ہے
خزاں سے رک سکا کب موسم گل
یہی اصل اصول زندگی ہے
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
کھنڈر سے کل جہاں بکھرے پڑے تھے
وہیں سے آج ایواں اٹھ رہے ہیں
جہاں کل زندگی مبہوت سی تھی
وہیں پر آج نغمے گونجتے ہیں
یہ سناٹے سے لی ہے سمت ہجرت
یہی اصل اصول زندگی ہے
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
رہے یخ بستگی کا خوف جب تک
شعاعیں برف پر لرزاں رہیں گی
نہ دھیرے جم نہیں پائیں گے جب تک
چراغوں کی لویں رقصاں رہیں گی
بشر کی اپنی ہی تقدیر سے جنگ
یہی اصل اصول زندگی ہے
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
نظم
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
احمد ندیم قاسمی