EN हिंदी
افکار پریشاں | شیح شیری
afkar-e-pareshan

نظم

افکار پریشاں

امجد نجمی

;

یہ عروج دولت قیصری یہ شکوہ تاج سکندری
کہ یہاں تو خون غریب سے ہے تپش میں نبض تونگری

وہی خواجگی وہی خسروی وہی رنگ و نسل کی برتری
یہی ہے تمدن مغربی کوئی مجھ سے سن لے کھری کھری

جو ہے طرز بادہ کشاں یہی جو ہے میکدے کا سماں یہی
خم و شیشہ میں مئے لالہ گوں یوں ہی سڑ رہے گی دھری دھری

یہ زمانہ کیسا بدل گیا نہ وہ ولولے نہ وہ حوصلے
کسی وقت تھے جو صنم شکن وہ ہیں آج وقف صنم گری

مرے دل پہ برق سی گر پڑی یہ کہا جو مرغ اسیر نے
مرے آشیانے کی شاخ بھی کبھی تھی چمن میں ہری بھری

وہی آہ اصل میں آہ ہے وہی نالہ اصل میں نالہ ہے
کہ ادھر جو دل سے نکل پڑے تو ادھر فلک میں ہو تھرتھری

یہ ستم ظریفیٔ عہد نو بھی ہے نجمیؔ کتنی عجیب سی
کہ جو گمرہی میں ہے مبتلا ہے اسی کو دعویٰ رہبری