EN हिंदी
ادھورا گیان | شیح شیری
adhura gyan

نظم

ادھورا گیان

محمد عظیم

;

بہت سے بھید ایسے ہیں جنہیں میری نظر کا دور تک پھیلا ہوا دامن
ابھی تک چھو نہیں پایا

بس اک بکھراؤ ہے ہر سمت خال و خط انوکھے بے جہت بے شکل
جیسے سردیوں کی رات بارش اور کمرے میں سسکتے قمقمے

سواد ذہن پر اک جگنوؤں کی لہلہاتی فصل کا لہراؤ
سماعت کی میں کس منزل پہ ہوں گرجتے بادلوں کے لب مقفل

دلوں کی دھڑکنوں کا سرد آہنگ مسلسل بے صدا بے کل
خموشی نیند میں ہے شور کو آواز دیتی ہے

میں کس کی شکل میں ہوں کون ہوں مجھ سے میرا کیا تعلق ہے
مرے احساس میں اپنائیت کو غیریت سے کیا شکایت ہے

کیوں شکایت ہے
بہت سے بھید ایسے ہیں

جنہیں میری نظر کا دور تک پھیلا ہوا دامن
ابھی تک چھو نہیں پایا