وہ جگمگاتا ہوا شہر میری آنکھوں میں
تمام رات لرزتا ہے
آنسوؤں کی طرح
کبھی سسکتا ہے ٹوٹے ہوئے مناروں میں
کبھی ٹپکتا ہے آوازۂ بہار کی صورت
حساب قطرۂ اشک
آئینہ ستونوں کا
مرے بجھے ہوئے چہرے کے سامنے آ کر
پکارتا ہے
چلے آؤ جان عہد گزشتہ
وہ سائبان بہت انتظار کرتا ہے
اجڑ گئی ہے تکلم کی بستیاں
لیکن
نشانیاں کئی باقی ہیں
بجھتی ہوئی بے زباں فضاؤں میں
حروف و صوت و صدا کے غبار کی صورت
کشادہ آنگنوں کا سرمئی اندھیرا لرزتا ہے
کچھ پرندوں کی
عالم پناہ آنکھوں میں
وہ جگمگاتا ہوا شہر
ایک قلعۂ آشفتگاں بھی ہے
جس سے
ہر ایک خواب عدم
سر پٹکتا رہتا ہے
نظم
عدم سے پرے
عین تابش