مرا وجود زندگی کا بھید ہے دیکھ
یہ ایک ہونٹ کے شعلے پہ برگ گل سے خراش
یہ ایک جسم کے کندن میں گدگدی سے گداز
یہ ایک روح بھنچے بازوؤں میں کھیلتی لہر!
ذرا قریب تو آ دیکھ تیرے سامنے ہیں
یہ سرخ رس بھرے لب جن کی اک جھلک کے لیے
کبھی قبیلوں کے دل جوشنوں میں دھڑکے تھے
جو تو کہے تو یہی ہونٹ سرخ رس بھرے ہونٹ
ترے لہو میں شگوفے کھلا بھی سکتے ہیں!
قریب آ یہ بدن میری زندگی کا طلسم
تری نگاہ کی چنگاریوں کا پیاسا ہے
جو تو کہے تو یہی نرم لہریا آنچل
یہی نقاب مری چٹکیوں میں اٹکی ہوئی
یہی ردا مری انگڑائیوں سے مسکی ہوئی
یہ آبشار ڈھلانوں سے گر بھی سکتی ہے
بس ایک شرط۔۔۔ یہ گوہر سطور دستاویز
ذرا کوئی یہ وثیقہ رقم کرے تو سہی
اکائیوں کے ادھر جتنے دائرے ہوں گے!
ادھر بھی اتنے ہی عکس ان برہنہ شعلوں کے
نظم
ایکٹرس کا کنٹریکٹ
مجید امجد