EN हिंदी
تیرے میرے جسم پر اسرار میں | شیح شیری
tere mere jism-e-pur-asrar mein

نظم

تیرے میرے جسم پر اسرار میں

تخت سنگھ

;

قبل ازیں کہ نارسا ادراک سے
تہ بہ تہ ہونے نہ ہونے کے

معنی کو تو سلجھانے لگے
اس حقیقت کو سمجھ

دفن تھا صدیوں سے جو زیر زمیں
کیسے اس ایندھن کی گرمی کے طفیل

بیچ پودے بن کے لہرانے لگے
قبل ازیں کہ تیرا فکر موشگاف

مغز انساں اور اعضائے بدن کے درمیاں
ان ریشوں کے ہر ہر لچھے کے گرد

جن میں دل کی برق رو موجیں رواں ہیں
جن میں احساسات کی مہتابیاں ہیں

گردشوں پر گردشیں کھانے لگے
اس حقیقت کو سمجھ

کیوں کوئی بے برق ذرہ
اک انوکھی دھات کے

نقطہ مرکز کے بارودی عناصر سے
معاً کچھ ایسے ٹکرانے لگے

دیکھتے ہی دیکھتے
نقطہ مرکز کا جادو بھک سے اڑ جانے لگے

ہر تصادم کے عمل کا
ایک سا رد عمل

ایک سے رد عمل کا سلسلہ
بے کراں تخیل کی اڑتی حدوں سے ماورا

لا انتہا
میں نے مانا

ہم بھی صرف ایک مشت خاک ہیں
پل اگر چلے بنیں تو ہم خس و خاشاک ہیں

لیکن آتا ہے خیال
انشفاق اک ذرۂ نا چیز کا

جب بدل سکتا ہے تا حد نظر
قمقموں کی جگمگاہٹ کے تجلی زار میں

پھر تعجب کیوں
اگر دیکھوں میں جو ہر کی توانائی کا

سیل بے کراں
خیرہ‌ کناں

ذروں کے ہر آوارہ گرد انبار میں
تیرے میرے جسم پر اسرار میں