سنو کثرت خاک میں بسنے والو
سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو
یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ
تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے
فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت
کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے دیکھنے کی تمنا
یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو
سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو
ادھر سینکڑوں کوس پر اک پہاڑی ہے جس پر کوئی شے نہیں ہے
وہاں ہر طرف سے تمہیں آگ کے غول گھیرے میں لینے کی خاطر کھڑے ہیں
ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ
سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں
پھر کسی ساعت شب گرفتہ میں کوئی ستارا بلاتا نہیں
نظم
ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ
رفیق سندیلوی