ابھی تک موسم گل لوٹ کر آیا نہیں
کچھ دیر باقی ہے
ابھی اس درد کی چھاؤں میں سانسوں کو رواں رکھنے کا حیلہ
ڈھونڈھنا ہے
پاؤں میں مٹی کے جوتے ہاتھ میں کشکول جاں
سر پر کلاہ غم
قبائے گرد میں لپٹے بدن دیوار گریہ سے
لگا کر بیٹھنا ہے اور
اس موسم کا رستہ دیکھنا ہے جس کی خاطر
ہم نے اپنی خاک کے ذروں سے
اپنے گھر بنائے تھے
ابھی کچھ دیر باقی ہے
ابھی گلیوں مکانوں کی چھتوں پر ڈیوڑھیوں میں خامشی
خنجر بکف پہرے پہ فائز ہے
یہاں اس قریۂ عبرت میں اک قصر بلند و پر حشم ہے
جس کے فرش نیلمیں پر ایک
انبوہ غلاماں صف بہ صف خالی سروں کو اپنے
سینے پر جھکائے
ہاتھ باندھے
اپنے آقا سے وفاداری کا دم بھرتا ہے
حاجت مند مسائل کی طرح بے وزن
لہجے میں سخن کرتا ہے جیتا ہے نہ مرتا ہے
ذرا دیکھو
ذرا اس قریۂ عبرت کے قصر پر حشم سے اس طرف دیکھو
ہوا محبوس ہے برگ و ثمر سے خالی پیڑوں کی
برہنہ ٹہنیوں کے ساتھ گرہیں ڈال کر باندھی
گئی ہے اور
زمستاں کی سنہری دھوپ ٹکڑے ٹکڑے
کر کے شہر کی اونچی چھتوں پر چیل کوؤں کے لیے ڈالی گئی ہے
آتش گل سے چراغ شام تک جو کچھ دل
عشاق کو ورثے میں ملتا ہے
اسیران فرات و شام کے مانند
زنجیر و سلاسل میں پرو کر صاحب قصر حشم کے سامنے لایا گیا ہے
پہرہ واروں نے دریچے
کھڑکیاں اور بھاری دروازے مقفل کر دئے ہیں
اور موسم ان دریچوں
کھڑکیوں اور بھاری دروازوں سے باہر ساکت و جامد کھڑا ہے
بازیابی کی اجازت چاہتا ہے
ماتمی رنگوں میں ڈوبا درد کا موسم حضور شاہ سے
اپنے تن نازک پہ برگ گل سجانے کی حمایت چاہتا ہے
بیڑیاں پہنے ہوئے لب بستہ و ساکن ہوا کے پاؤں میں
خوشبو کی پائل باندھنے اور پھر اسے آزاد کرنے
کی سعادت چاہتا ہے
لیکن
اے کار جنوں
کار نمو آغاز ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی ہے
نظم
ابھی موسم نہیں آیا
ایوب خاور