موت کس راہ پر کھڑی میری راہ دیکھ رہی ہے
ابھی ابھی میں نے ہوا کی ان دیکھی چادر میں سوراخ کیا ہے
اور بہت اوپر کے بادلوں کو چھلنی کر دیا ہے
زمین بھر کی وہ ساری مٹی
جو ان گنت دفن ہونے والوں
کی کیمیا سے بنی ہے
اور چاروں دشاؤں میں
ان گنت بدن جلوں کی چتاؤں کی جو راکھ بنی ہے
کہاں لے جائے گی مجھے
میں تو اب وہ ہوں ہی نہیں جو کبھی ہوا کرتا تھا
اب نہ تو میں کبھی سوتا ہوں اور نہ کبھی جاگتا ہوں
میں نہ پاؤں چلتا ہوں نہ میں قدم ساکن ہوں
موت میرے پاؤں کے بنا چل سکتی ہے
موت میرے قدم کے بنا ساکن ہو سکتی ہے
اب غلاف زندگی کی کوئی بھی ایک پرت رہ گئی ہو
تو اسے زندگی سے ہٹا دیا جائے
جب عقاب اونچی اڑان پر ہو
تو اس کی آنکھ میں کوئی سوئی چبھوئی نہیں جا سکتی
موت نے مجھے عقاب بنا دیا ہے
یا شاید مجھے کسی فرشتے میں تبدیل کر دیا ہے
اب مجھے زمین پر یا زمین کی فضول دنیا کی سطح پر ڈھونڈا نہ جائے
میں اب کسی کی دسترس میں نہیں ہو
نظم
ابد
احمد ہمیش