کتنے منظر ٹوٹ کے گرتے رہتے ہیں
ان آنکھوں سے
یخ بستہ پاتالوں میں
کتنے دکھ ہر لمحہ لپٹے رہتے ہیں
اجلے پاؤں کے چھالوں سے
کن یادوں کا بوجھ اٹھائے
پھرتے ہیں
ہم ذہنوں میں
جو باقی نہیں حوالوں میں
چاندنی جیسے کتنے ہی جسم
ڈوبتے ڈوبتے چیخ رہے تھے
مٹی کے کچے پیالوں میں
اور اب تو کچھ ایسا ہے
جن کی خاطر ہم نے ساری عمر گنوائی
یاد نہیں وہ آئے
گزرے سالوں میں
نظم
اب تو کچھ بھی یاد نہیں
فہیم شناس کاظمی