اب سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں
کچھ سینے میں چبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
نظم
اب سو جاؤ
فہمیدہ ریاض