چھا گئی برسات کی پہلی گھٹا اب کیا کروں
خوف تھا جس کا وہ آ پہنچی بلا اب کیا کروں
ہجر کو بہلا چلی تھی گرم موسم کی سموم
ناگہاں چلنے لگی ٹھنڈی ہوا اب کیا کروں
آنکھ اٹھی ہی تھی کہ ابر لالہ گوں کی چھاؤں میں
درد سے کہنے لگا کچھ جھٹپٹا اب کیا کروں
اشک ابھی تھمنے نہ پائے تھے کہ بیدردی کے ساتھ
بوندیوں سے بوستاں بجنے لگا اب کیا کروں
زخم اب بھرنے نہ پائے تھے کہ بادل چرخ پر
آ گیا انگڑائیاں لیتا ہوا اب کیا کروں
آ چکی تھی نیند سی غم کو کہ موسم ناگہاں
بحر و بر میں کروٹیں لینے لگا اب کیا کروں
چرخ کی بے رنگیوں سے سست تھی رفتار غم
یک بیک ہر ذرہ گلشن بن گیا اب کیا کروں
قفل باب شوق تھیں ماحول کی خاموشیاں
دفعتاً کافر پپیہا بول اٹھا اب کیا کروں
ہجر کا سینے میں کچھ کم ہو چلا تھا پیچ و تاب
بال بکھرانے لگی کالی گھٹا اب کیا کروں
آنکھ جھپکانے لگی تھی دل میں یاد لحن یاد
مور کی آنے لگی بن سے صدا اب کیا کروں
گھٹ چلا تھا غم کی رنگیں بدلیوں کی آڑ سے
ان کا چہرہ سامنے آنے لگا اب کیا کروں
آ رہی ہیں ابر سے ان کی صدائیں جوشؔ جوشؔ
اے خدا اب کیا کروں بار خدا اب کیا کروں
نظم
اب کیا کروں
جوشؔ ملیح آبادی