(۱)
گرم جوشی
اب سورج سر پر آ دھمکے گا
ٹھنڈا لوہا چمکے گا
اور دھوپ جواں ہو جائے گی
سٹھیائے ہوئے فرزانوں پر
اب زیست گراں ہو جائے گی
ہر اصل عیاں ہو جائے گی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب آگ بگولے ناچیں گے
سب لنگڑے لولے ناچیں گے
گرداب بلا بن جائیں گے
روندی ہوئی مٹی کے ذرے
طوفان بہ پا بن جائیں گے
صحرا دریا بن جائیں گے
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب سستی جال بچھائے گی
اب دھونس نہ چلنے پائے گی
مزدوروں اور کسانوں پر
اب سوکھا خون نچوڑنے والے
روئیں گے نقصانوں پر
ان کھیتوں ان کھلیانوں پر
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب پیلی دھات کی بیماری
پھیلا نہ سکیں گے بیوپاری
لوہے کا لوہا مانیں گے
سونے کی گہری کانوں میں
سو جانا بہتر جانیں گے
در در کی خاک نہ چھانیں گے
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب خون کے ساگر کھولیں گے
انسان کے جوہر کھولیں گے
چڑھ جائے گی تپ صحراؤں کو
اٹھے گی امڈ کر لال آندھی
پی جائے گی دریاؤں کو
باندھے گا تند ہواؤں کو
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
ہر زلف سے بچھو لپکیں گے
آنکھوں سے شرارے ٹپکیں گے
صیادوں حسن شکاروں پر
غصے کا پسینہ پھوٹے گا
موتی بن کر رخساروں پر
اس دھوپ میں چاند ستاروں پر
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب دودھ نہ دیں گی بھینسیں گائیں
اف اف کرنے لگیں گی مائیں
بچے مم مم چیخیں گے
اور اونگھنے والے نکھٹو شوہر
''عقل مجسم'' چیخیں گے
سب درہم برہم چیخیں گے
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب خانقہوں کی مردہ اداسی
روز ازل کی بھوکی پیاسی
جھومے گی مے خانوں پر
اب ساقی مغچے پیر مغاں
بیچیں گے وعظ دکانوں پر
ان زہر بھرے پیمانوں پر
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
زورآوری سے کمزوروں کی
اب جیب کٹے گی چوروں کی
اور منڈی ساہو کاروں کی
اب بھوکی ''ہو حق'' سیر کرے گی
منڈیوں اور بازاروں کی
گت دیکھ کے دنیا داروں کی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
جینا دل گردہ ڈھونڈے گا
ہر زندہ ''مردہ'' ڈھونڈے گا
کوئی کونا کھدرا تہہ خانہ
اب ہر جنگل میں منگل ہوگا
ہر بستی میں ویرانہ
اک نعرہ لگا کر مستانہ
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
(۲)
سرد مہری
اب جاڑا جھنڈے گاڑے گا
اور فیل فلک چنگھاڑے گا
اب بادل شور مچائیں گے
اب بھوت فلک پر چڑھ دوڑیں گے
دھرتی کو دہلائیں گے
ہنسنے کے مزے اب آئیں گے
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
ایوان کریں گے بھائیں بھائیں
پھونس کی جھونپڑیوں میں ہوائیں
سائیں سائیں گونجیں گی
اس گونج میں بھوکے ننگوں کی
سنسان صدائیں گونجیں گی
ویران سرائیں گونجیں گی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب بجلی کے کوڑوں سے ہوا
شمشیر بکف زنجیر بہ پا
لوہے کے رتھوں کو ہانکے گی
ایک ایک دھوئیں کے محمل سے
صد حسن کی ملکہ جھانکے گی
اب آگ انگارے پھانکے گی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب ٹھنڈی آہوں کے پرنالے
پالے آفت کے پر کالے
کندے تولے برسیں گے
اب آہن ٹھنڈا پڑ جائے گا
آہن کے گولے برسیں گے
ہر سر پر اولے برسیں گے
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
تخریب کی توپیں چھوٹیں گی
تعمیر کی کلیاں پھوٹیں گی
ہر گورستان شاہی میں
بالائے ہوا زیر دریا
غل ہوگا مرغ و ماہی میں
اس نو آباد تباہی میں
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب ناگن بانبی گرمائے گی
سانپ کی لالی لہرائے گی
کالے آتش دانوں میں
دانائیاں کینچلی بدلیں گی
شہروں کے بندی خانوں میں
اور دور کھلے میدانوں میں
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
بھس خالی پیٹ میں بھر نہ سکے گا
کوئی تجارت کر نہ سکے گا
سکڑی سکڑی کھالوں کی
اب منڈھ بھی جائے تو بج نہ سکے گی
نوبت پیسے والوں کی
بیکاری پر دلالوں کی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب دال نہ جاگیروں کی گلے گی
آگ مگر دن رات جلے گی
چمڑے کے تنوروں میں
اب کال پڑے گا غلے کا
بیوپاریوں بے مقدوروں میں
اور پیٹ بھرے مزدوروں میں
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
اب گاڑھا پسینہ بننے والے
اوڑھے پھریں گے شال دو شالے
مفت نہ جھولیں جھولیں گی
پھولے ہوئے گال اب پچکیں گے
پچکی ہوئی توندیں پھولیں گی
سب عقلیں چوکڑی بھولیں گی
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
نظم
اب خوب ہنسے گا دیوانہ
حفیظ جالندھری