EN हिंदी
اب جدھر بھی جاتے ہیں | شیح شیری
ab jidhar bhi jate hain

نظم

اب جدھر بھی جاتے ہیں

محمد علوی

;

پہلے ایسا ہوتا تھا
بھانت بھانت کے بندر

شہر کی فصیلوں پر
محفلیں جماتے تھے

گھر میں کود آتے تھے
ہاتھ میں سے بچوں کے

روٹی نوچ جاتے تھے
اب تو وہ مداری بھی

خالی ہاتھ آتا ہے
بھیک مانگ کر گھر گھر

گھر کو لوٹ جاتا ہے
اب گھروں میں چڑیوں کا

شور کیوں نہیں ہوتا
رات کو کوئی الو

پیڑ پر نہیں روتا
پیڑ پر نہیں روتا

لڑتے لڑتے چڑیاں کیوں
فرش پر نہیں گرتیں

بلیاں چھتوں پر کیوں
گھومتی نہیں پھرتیں

اب نہ کوئی بلبل ہے
اور نہ کوئی مینا ہے

اب نہ کوئی تیتر ہے
اور نہ کوئی طوطا ہے

کس سے پوچھنے جائیں
مور کیسا ہوتا ہے

ٹولیاں کبوتر کی
کھو گئیں فضاؤں میں

تتلیوں کے رنگیں پر
بہہ گئے ہواؤں میں

منہ اندھیرے اب مرغا
بانگ کیوں نہیں دیتا

گھر میں کوئی بکری کا
نام کیوں نہیں لیتا

کیا ہوئے درختوں پر
گھونسلے پرندوں کے

کوئی بھی نہیں کہتا
قصے اب درندوں کے

ننھے ننھے چوزوں پر
چیل کا جھپٹنا اب

دیکھنے کہاں جائیں
راستے میں سانڈوں کا

پہروں لڑتے رہنا اب
دیکھنے کہاں جائیں

چھپکلی کی جیتی دم
اب تھرکتی کیا پائیں

رنگ بدلتے گرگٹ کو
مارتے کہاں جائیں

گائے بھینس کا ریوڑ
اب ادھر نہیں آتا

اونٹ ٹیڑھا‌ میڑھا سا
اب نظر نہیں آتا

اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں
اور نہ وہ براتی ہیں

اب گلی میں کتوں کا
بھونکنا نہیں ہوتا

رات چھت پہ سوتے ہیں
بھوت دیکھ کر کوئی

چونکنا نہیں ہوتا
اب جدھر بھی جاتے ہیں

آدمی کو پاتے ہیں