اب بھی روشن ہیں وہی دست حنا آلودہ
ریگ صحرا ہے نہ قدموں کے نشاں باقی ہیں
خشک اشکوں کی ندی خون کی ٹھہری ہوئی دھار
بھولے بسرے ہوئے لمحات کے سوکھے ہوئے خار
ہاتھ اٹھائے ہوئے افلاک کی جانب اشجار
کامرانی ہی کی گنتی نہ ہزیمت کا شمار
صرف اک درد کا جنگل ہے فقط ہو کا دیار
جب گزرتی ہے مگر خوابوں کے ویرانے سے
اشک آلودہ تبسم کے چراغوں کی قطار
جگمگا اٹھتے ہیں گیسوئے صبا آلودہ
ٹولیاں آتی ہیں نوعمر تمناؤں کی
دشت بے رنگ خموشی میں مچاتی ہوئی شور
پھول ماتھے سے برستے ہیں نظر سے تارے
ایک اک گام پہ جادو کے محل بنتے ہیں
ندیاں بہتی ہیں آنچل سے ہوا چلتی ہے
پتیاں ہنستی ہیں اڑتا ہے کرن کا سونا
ایسا لگتا ہے کہ بے رحم نہیں ہے دنیا
ایسا لگتا ہے کہ بے ظلم زمانے کے ہیں ہاتھ
بے وفائی بھی ہو جس طرح وفا آلودہ
اور پھر شاخوں سے تلواریں برس پڑتی ہیں
جبر جاگ اٹھتا ہے سفاکی جواں ہوتی ہے
سائے جو سبز تھے پڑ جاتے ہیں پل بھر میں سیاہ
اور ہر موڑ پہ عفریتوں کا ہوتا ہے گماں
کوئی بھی راہ ہو مقتل کی طرف مڑتی ہے
دل میں خنجر کے اترنے کی صدا آتی ہے
تیرگی خوں کے اجالے میں نہا جاتی ہے
شام غم ہوتی ہے نمناک و ضیا آلودہ
یہی مظلوموں کی جیت اور یہی ظالم کی شکست
کہ تمنائیں صلیبوں سے اتر آتی ہیں
اپنی قبروں سے نکلتی ہیں مسیحا بن کر
قتل گاہوں سے وہ اٹھتی ہیں دعاؤں کی طرح
دشت و دریا سے گزرتی ہیں ہواؤں کی طرح
مہر جب لگتی ہے ہونٹوں پہ زباں پر تالے
قید جب ہوتی ہے سینے میں دلوں کی دھڑکن
روح چیخ اٹھتی ہے ہلتے ہیں شجر اور حجر
خامشی ہوتی ہے کچھ اور نوا آلودہ
سرکشی ڈھونڈھتی ہے ذوق گنہ گاری کو
خود سے شرمندہ نہیں اوروں سے شرمندہ نہیں
یہ مرا دل کہ ہے معصوم و خطا آلود
نظم
اب بھی روشن ہیں
علی سردار جعفری