EN हिंदी
اب اور تب | شیح شیری
ab aur tab

نظم

اب اور تب

سید محمد جعفری

;

نہ پوچھ اے ہم نشیں کالج میں آ کر ہم نے کیا دیکھا
زمیں بدلی ہوئی دیکھی فلک بدلا ہوا دیکھا

نہ وہ پہلی سی محفل ہے نہ مینا ہے نہ ساقی ہے
کتب خانے میں لیکن اب تلک تلوار باقی ہے

وہی تلوار جو بابر کے وقتوں کی نشانی ہے
وہی مرحوم بابر یاد جس کی غیر فانی ہے

زمیں پر لیکچرر کچھ تیرتے پھرتے نظر آئے
اور ان کی ''گاؤن'' سے کندھوں پہ دو شہ پر نظر آئے

مگر ان میں مرے استاد دیرینہ بہت کم تھے
جو دو اک تھے بھی وہ مصروف صد افکار پیہم تھے

وہ زینے ہی میں ٹکرانے کی حسرت رہ گئی دل میں
سنا ون وے ٹریفک ہو گئی اوپر کی منزل میں

اگرچہ آج کل کالج میں واقف ہیں ہمارے کم
ہمیں دیوار و در پہچانتے ہیں اور ان کو ہم

بلندی پر الگ سب سے کھڑا ''ٹاور' یہ کہتا ہے
بدلتا ہے زمانہ میرا انداز ایک رہتا ہے

فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر

مگر ''ٹاور'' کی ساعت کے بھی بازو خوب چلتے ہیں
کبوتر بیٹھ کر سوئیوں پہ وقت اس کا بدلتے ہیں

اسی مالک کو پھر حلوے کی دعوت پر بلاتے ہیں
وہ حلوہ خوب کھاتے ہیں اسے بھی کچھ کھلاتے ہیں

اگر وہ یہ کہے اس میں تو زہریلی دوائی ہے
مرا دل جانتا ہے اس میں انڈے کی مٹھائی ہے

پھر اس کے بعد بہر خودکشی تیار ہوتے ہیں
وہ حلوہ بیچ میں اور گرد اس کے یار ہوتے ہیں

وہ پوچھے گر کہاں سے کس طرح آیا ہے یہ حلوہ
تو ڈبہ پیش کر کے کہہ دیا اس کا ہے سب جلوہ

کسی کنجوس کے کمرے میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں
اور اس کے نام پر ٹک شاپ سے چیزیں منگاتے ہیں

بچارہ جعفریؔ مدت کے بعد آیا ہے کالج میں
اضافہ چاہتا ہے اپنی انگریزی کی نالج میں

ترے سینے پہ جب یاران خوش آئیں کی محفل ہو
تو اے 'اوول' اسے مت بھول جانا وہ بھی شامل ہو