EN हिंदी
آزار | شیح شیری
aazar

نظم

آزار

معین احسن جذبی

;

کیا خبر تھی یہ ترے پھول سے بھی نازک ہونٹ
زہر میں ڈوبیں گے کمھلائیں گے مرجھائیں گے

کس کو معلوم تھا یہ حشر تری آنکھوں کا
نور کے سوتے بھی تاریکی میں کھو جائیں گے

تیری خاموش وفاؤں کا صلہ کیا ہوگا
میرے ناکردہ گناہوں کی سزا کیا ہوگی

قہقہے ہوں گے کہ اشکوں کی ترنم ریزی
دل وحشی ترے جینے کی ادا کیا ہوگی

کوئی الجھا ہوا نغمہ کوئی سلجھا ہوا گیت
کون جانے لب شاعر کی نوا کیا ہوگی

ہاں مگر دل ہے کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے
اس سے بڑھ کر کوئی توہین وفا کیا ہوگی

اور یہ شور گرجتے ہوئے طوفانوں کا
ایک سیلاب سسکتے ہوئے انسانوں کا

ہر طرف سیکڑوں بل کھاتی دھویں کی لہریں
ہر طرف ڈھیر جھلستے ہوئے ارمانوں کا

زندگی اور بھی کچھ خوار ہوئی جاتی ہے
اب تو جو سانس ہے آزار ہوئی جاتی ہے